ادھر وعدہ کیا اس نے ادھر دل کو یقیں آیا
محبت آشنا دل مذہب و ملت کو کیا جانے
ہوئی روشن جہاں بھی شمع پروانہ نہیں آیا
دوعالم سے گزر کے بھی دل عاشق ہے آوارہ
ابھی تک یہ مسافر اپنی منزل پر نہیں آیا
مری جانب سے ان کے دل میں کس شکوے پہ کینہ ہے
وہ شکوہ جو زباں پر کیا ابھی دل میں نہیں آیا
حیات بے خودی کچھ ایسی نا محسوس تھی ناطق
اجل آئی تو مجھ کو اپنی ہستی کا یقیں آیا
ناطق لکھنوی