منصورزبیری کے شرابی آغوش میں

منصورزبیری کے شرابی آغوش میں
(31 ویں اگست 1994)
سامنے ہو کے دلنشیں ہوتا
تو بھی اے جانِ جاں یہیں ہوتا
تم بھی اکثر کہیں نہیں ہوتے
میں بھی اکثر کہیں نہیں ہوتا
زندگی اپنی جستجو ہے تری
تو جو ہے جان،تو کہیں ہوتا
دل سے بس ایک بات کہہ دیجیو
دل کا چاہا ہوا، نہیں ہوتا
تو قیامت کا بے مروت ہے
میں ترا ہمنشیں،نہیں ہوتا
بات کرتے ہیں سنگِ در کی سبھی
کوئی خونیں جبیں نہیں ہوتا
کوئی بھی دل ربا و دل بر ہو
دل سے بڑھ کر حسیں نہیں ہوتا
جون آغازِِ مے گساری میں
نشہ ہوتا ہے،پھر نہیں ہوتا
تم نہیں چاہتے مرا ہونا
چلو اچھا ہے،میں نہیں ہوتا
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *