وہ میرے قلب کو چھیدے گا کب گمان میں تھا

وہ میرے قلب کو چھیدے گا کب گمان میں تھا
جو ایک تیر مرے دوست کی کمان میں تھا

وہ زیر سایۂ الطاف باغبان میں تھا
جو آشیانہ زد برق بے امان میں تھا

فگار لے سے ہوا میری سینۂ نے بھی
نفس نفس تری چاہت کا امتحان میں تھا

یہ معجزہ تھا یقیناً تری محبت کا
جو اوج فکر و تخیل مرے بیان میں تھا

وہ جس نے دھوپ کی پرچھائیں تک نہیں دابی
اسے سمجھتے ہو ہر لمحہ سائبان میں تھا

مخالفوں کو بھی اپنا بنا لیا تو نے
عجیب طرح کا جادو تری زبان میں تھا

نیاز عشق نے آخر اٹھا دیا آتش
وہ ایک پردہ سا حائل جو درمیان میں تھا

آتش بہاولپوری

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *