میں دنیا کے مہذب ترین امریکہ کو
مبارکباد دیتا ہوں
اور نفرت کا ایک گیت لکھتا ہوں
اے امریکہ
تمہیں لاشوں میں آگ بھرنے والے حواری مبارک ہوں
اے امریکہ
اے ہسپتالوں پر بم گرانے والے امریکہ
اگر تمہیں ڈسپرین کے سفوف
اور بارود کا فرق معلوم ہوتا
تو غموں سے پتھرائی ہوئی آنکھوں میں آنسو بھرنے کی خواہش کبھی نہ کرتے
اے امریکہ
کیا تمہیں علم ہے کہ عورت صرف ناف سے نچلا حصہ نہیں ہوتی
اے امریکہ کاش تمہاری کوئی ماں ہوتی
یا کم از کم کوئی باپ ہی ہوتا
اے امریکہ
تمہیں صرف آگ برسانا آتا ہے
پھول کھلانا نہیں
کیا انسانیت صرف نائٹ کلبوں میں تھرکنے والے جنسی اعضاء کا نام ہے
اے امریکہ
تم واقعی بہادر ہو
بے کار پرانی بندوقیں کندھوں پر اٹھا کے
سائیکلوں پر گشت کرنے والے فوجی کتنے خطرناک ہوتے ہیں
یہ صرف تمہیں ہی پتہ ہے
اور اگر تم بہادر نہ ہوتے
تو پوری دنیا سے فوج کی بھیک کیوں مانگتے پھرتے
امریکہ تم کتنے دلیر ہو
اور کیسے کیسے خطرات سے کھیلتے ہو
تم نے یہ بھی پروا نہیں کی
کہ ہزاروں میلوں کی بلندی سے پھینکے ہوئے بم
اگر زمین سے ٹکرا کر واپس جہازوں سے آ لگے
تو پینٹا گان لوٹنا کتنا مشکل ہو جائے گا
اے دلیر، بہادر اور
غیرت مند امریکہ
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم اکیلے ہیں بہت)