ہم جس سے سر کو پھوڑیں وہ دیوار ہی نہیں
اس شہر میں جو درد کو بیچوں تو کس کے ہاتھ
اس شہر میں تو کوئی خریدار ہی نہیں
اک مجھ سوا زمانے میں یہ بدنگاہ لوگ
اُس اُس کو پوچھتے ہیں جو بیمار ہی نہیں
کچھ روح کا کروں کہ محبت کا کچھ کروں
دل کا کروں جو مائل آزار ہی نہیں
دل ہیں کہ مڑ کے دیکھے بنا سنگ ہو گئے
اور وہ پلٹ کے کہتے ہیں ایثار ہی نہیں
حد خیال تک نہیں کوئی تری خبر
حد نگاہ تک کوئی آثار ہی نہیں
لکھتے ہیں شعر درد کے آثار ہی نہیں
بازار ہے پہ گرمی بازار ہی نہیں
کیا معتبر گواہ قبیلے سے لے کے آؤں
دیوانہ کوئی صاحب دستار ہی نہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – تیرے کچھ خواب)