خوف کے پاس کہاں وقت بچے

خوف کے پاس کہاں وقت بچے
کتنی ویرانی مجھے ہے ترے بن چمٹی ہوئی
خوف کے پاس کہاں وقت بچے
اس قدر جگہیں بلاتی ہیں کہ گنتی ہی نہیں ہے ممکن
ترے آرام کی خواہش بھی مجھے لے ڈوبی
کاش تو عالمِ آلام سے محفوظ رہے
ترے بن مرگ کے سائے مجھے کرتے ہیں تلاش
ترے بن راستے ڈستے ہیں مجھے
ترے بن خار توستے ہیں مجھے
پھول بہت مہنگے ہیں
تری دوری میں جو پنہاں ہیں کئی خوف
کوئی ایسا غلط بھی تو نہیں
ترے کھو جانے کا ڈر
تیری جدائی کی فصیل
ہم کو معلوم ہے چاہت کا نتیجہ لیکن
خوف عادت ہی بنا لی ہم نے
اور ویرانی کو ہمراز کیا ہے تو یونہی اچھا ہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *