برسوں پہلے کی بات ہے
جب میں ایک چپ چاپ محبت کرنے والا
اور کچھ بھی نہ کہہ پانے والا
اور ساری کی ساری بات کو
خاموشی کی شریانوں میں دفن کر دینے والا دل تھا
پھر میں نے بات کرنا سیکھا
محبت نے چپ رہنا
اور جدائی نے آواز دینا
اور دکھوں نے بات کرنا سیکھا
پھر جب میرا صبر پہلی بار مرا
تو غصے نے مجھے چیخنا سکھایا
پھر میرا صبر بار بار موت کی دہلیز سے ٹکراتا رہا
اور چیخ چیخ کر میرا گلا رندھ گیا
یوں بے بسی نے مجھے
ہونٹ آپس میں پیوست کر دینا
اور منہ کو سختی سے بند کر لینا سکھایا
اور میں خود کلامی سے ہم کلامی کی منزل پر جا پہنچا
میں سمجھتا ہوں
شاعری خود کلامی نہیں ہم کلامی ہے
جب انسان اپنی ذات سے ہم کلام ہوتا ہے
تو اس کا جی چاہتا ہے وہ اپنے خدا سے ہم کلام ہو
کلام کی آخری منزل
خدا سے ہم کلام ہونا ہے
میں تنہائی کی نہ جانے کتنی صدیاں
اپنی شہہ رگ کے آس پاس گھومتا رہا
اپنے دل کی مسجد میں سر بہ سجدہ رہا
اور مجھے لگا پوری سچائی سے پکارنا ہی
خدا سے ہم کلام ہونا ہے
یہ مجھے ’’سرابی‘‘ کی ریاضت کے بعد نصیب ہوا
درمیان میں زمانہ بھی آڑے آتا رہا
شاید انسان اور خدا کے درمیان
سب سے بڑی رکاوٹ انسان کا انسان ہونا ہے
شاید فرشتوں کے لیے مسائل اور طرح کے ہوں
میں نے بھی دنیا دار بن جانے کی پوری کوشش کی
اور ناکام رہا
ایک شاعر کے لیے دنیا دار ہونا
دنیا کا مشکل ترین کام ہے
پھر یکے بعد دیگرے بچھڑنے والوں نے بھی
مجھے بہت زیادہ ناتواں کیا
اگرچہ احساسِ زمہ داری نے
وقت سے پہلے بوڑھا ہونے میں میری مدد کی
لیکن ساتھ ساتھ مجھے قید بھی رکھا
بڑھاپا آزاد ہو تو بڑے کام کی چیز ہے
شاید اسی لیے ہر کوئی آخری عمر میں زیادہ دلجمعی سے
عبادت کی طرف لوٹتا ہے
مجھے یاد ہے
پچھلے ایک خاص عرصے سے
میں کچھ بھی نہیں بول سکا
بلکہ شاید کوئی بھی کچھ نہیں بول سکا
صرف موت بولی ہے
اور جب موت بولتی ہے
تو صرف خاموشی ہی رہ جاتی ہے
منتشر کر دینے والی خاموشی
جو روح کے ایک ٹکڑے میں
چبھ جاتی ہے
اس میں بس کبھی کبھار کچھ ایسے لمحے آئے
جب موت سے کچھ فرصت ملی
تو میں نے کسی بہت ہی اپنے سے کچھ باتیں کیں
ان میں چند باتوں میں
آپ کو بھی شریک کر رہا ہوں
میں نے آپ سے نہ پہلے کچھ چھپایا ہے
اور نہ اب چھپاؤں گا
میری خاموشی بھی آپ کے ساتھ
اور میری باتیں بھی
فرحت عباس شاہ