ہوا ہو، وقت ہو، یا روشنی ہو
دعا ہو، آس ہو، یا زندگی ہو
مسافت طے شدہ ہے
اور ہر جنبش کہیں پابند ہے
لب اور فضا کے درمیاں ہر صوت کی صورت
اگرچہ
عالمِ موجود کا ہر اک شروع تاریکیوں کی کوکھ سے ہے
اور ہر انجام ہے کالی فصیلوں تک
مگر لا علم ہیں سارے کہ یہ تاریکیوں کی کوکھ کیسی ہے
اور اس دیوارِ تیرہ سے پرے کیا ہے
کہ جو جب تک شروع سے قبل تھا کچھ بھی نہیں تھا
اور پھر جو بھی کوئی انجام تک پہنچا ہے پھر سے لوٹ کے آیا نہیں
کیونکہ یہاں جو کچھ بھی ہے خود سے نہیں
یہ آسماں، رستے، خلا اور بدنصیبی طے شدہ ہیں
اور قیدی ہیں اشاروں کے
کہیں پر ایک اشیاء گر ہے
جو بے انت صدیوں سے کھڑا اپنے اشاروں سے ہزاروں
رنگ کی چیزیں بناتا ہے
مگر سب دائرہ در دائرہ اور آخری خود ہے
کبھی نقطہ کوئی تخلیق کر کے اُس کے کندھوں پر پروں کو ثبت کرتا ہے
اور اس کے بعد کتنے لاکھ بینائی سے بھی آگے تلک پھیلی ہوئی اندھی فضاؤں میں
بہت اونچا اڑا کے
واپسی کے راستوں کو ڈھانپ دیتا ہے
کبھی پَر باندھ کے کہتا ہے
اپنی بے بسی کی روح سے رستے لہو کو اپنی آنکھوں پر مَلو
کبھی منزل کے پانے کو ہواؤں کی سواری بخشتا ہے
اور کبھی بیساکھیاں بھی چھین لیتا ہے
کبھی اس کے ذرا سے حکم سے کوئی نیا سورج اُبھر کے
مدتوں کے تیرہ بختوں اور تھکے ہارے ہوؤں کو
روشنی دیتا اور اُن کا ہر سفر آسان کرتا ہے
مگر بس اک ذرا اگلے اِشارے تک
کہ جو بھی دائرے کھینچے گئے ہیں
اور فصیلیں ایستادہ کی گئی ہیں
خود بذاتِ خود یہی اگلا اشارہ ہیں
نہ جانے
ہم یہاں کب موسموں کی کون سی تحویل میں ہیں
اور موسم کس کی زد میں ہیں
بھلا کس سے کہیں اور کس سے پوچھیں؟
دائروں کا خوف سوچوں کے کسی بھی زاویے کو زاویہ بننے نہیں دیتا
دلوں کو اک مسلسل ڈر لگا رہتا ہے
جانے کب کہاں کس سوچ کی پاداش میں
کوئی سزا کے طور پہ پَر کاٹ دے یا
ہر قدم کو توڑ کے بیساکھیاں بھی چھین لے جائے
بھلا کس سے کہیں اور کس سے پوچھیں؟
اور اگر کوئی بتا بھی دے
کہ جو بھی ہے کھلونے کھیلنے والا کھلونوں کے دکھوں کا کھیل ہی تو کھیلتا ہے
تو بھلا ہم کیا کریں گے
اور کیا کر پائیں گے
کیونکہ بہر عام
مسافت طے شدہ ہے
اور ہر جنبش کہیں پابند ہے
لب اور فضا کے درمیاں ہر صوت کی صورت
ہماری موت کی صورت
فرحت عباس شاہ
(کتاب – آنکھوں کے پار چاند)