کتنا بے بس کر دیتے ہو
مجھے کوئی رنگ دیا ہوتا
میں ان کی بے رنگ آنکھوں میں بھرتا
مجھے کوئی چہرہ دیا ہوتا
میں ان بے چہروں کو سونپ دیتا
مجھے مرہم دیا ہوتا
میں ان کے زخموں پر لگاتا نہ تھکتا
مجھے مسیحائی دی ہوتی
میں اپنے آپ کو وقف کریتا
مجھے بینائی دی ہوتی، میں شہر بھر میں تقسیم کر آتا
مجھے حوصلہ دیا ہوتا
میں تسلی دینے کے قابل تو ہوتا
مجھے محبت دی ہے
اور۔۔۔۔۔۔
اور زیادہ کمزور کر دیا ہے
فرحت عباس شاہ