مصیبت دور تک پھیلی ہوئی تھی

مصیبت دور تک پھیلی ہوئی تھی
قیامت دور تک پھیلی ہوئی تھی
عجب اک سلسلہ تھا دوریوں کا
مسافت دور تک پھیلی ہوئی تھی
کبھی جب مڑ کے دیکھا ہم نے فرحت
محبت دور تک پھیلی ہوئی تھی
مرے ہی ساتھ دنیا تھی نہ ایسی
خیانت دور تک پھیلی ہوئی تھی
بہت مشکل ہوا اس کو منانا
شکایت دور تک پھیلی ہوئی تھی
کہاں محدود تھا غم اس کا بخشا
سخاوت دور تک پھیلی ہوئی تھی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – مرے ویران کمرے میں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *