میں نے چھپا لیا اور محبت نے ظاہر کر دیا

میں نے چھپا لیا اور محبت نے ظاہر کر دیا
میں اس کے بالوں کو چھوتا
محبت زنجیر بن جاتی
اور زنجیر بن کے اس کی زلفوں میں سرایت کر جاتی
میں بندھ جاتا
مقید ہو جاتا
سر تا پا مقید اور محصور
وہ روٹھتی تو دنیا روٹھ جاتی
وہ دور ہوتی، تو میں گلیوں گلیوں مارا مارا پھرتا
اپنے آپ کو ڈھونڈتا
آوازیں دیتا
چلاتا
سڑکیں میرا مذاق اڑاتیں
راستے مجھ پر آوازے کستے
موسم مجھے رحم سے دیکھتے
لوگ ترس کھاتے
پھر میں نے چھپا لیا
سب کا سب
ہر ایک سے چھپا لیا
اس سے بھی
لوگوں سے بھی
اور اپنے آپ سے بھی
میں نے چھپا لیا
اور محبت نے ظاہر کر دیا
میں نے اس کی خاطر، راتوں سے پیار کیا
اور رتجگوں سے دوستی
شاموں سے شناسائی پیدا کی
اور رونقوں سے اجنبی ہو گیا
چاند سے اس کا پتہ پوچھا
اور درختوں کے ساتھ مل کے اس کا سوگ منایا
میں اس سے لڑ پڑتا
اور خود پہ غصہ تان لیتا
اس سے بولنا بند کرتا
ویرانیوں سے باتیں کرنا شروع کر دیتا
کرتا جاتا، کرتا جاتا، کرتا چلا جاتا
اس سے ملتا اور چپ ہو جاتا
سوچتا اس سے کہوں
کبھی تو ایسا کرو
اپنے دنو ں سے باہر نکلو
میری راتوں میں آؤ
اور میرے وجود کو اپنی آنکھوں میں اتارو
میری روح میں اترو
مجھے خود پہ منکشف کرو
ایک آتش
ایک تپش
ایک حدّت
ایک شدّت
چلو دور سے ہی سہی
اور ایک ذرا لمحہ بھر کو ہی سہی
کبھی محسوس تو کرو
کبھی محسوس کرنے کی کوشش تو کرو
کبھی کوشش کرنے کا ارادہ تو باندھو
کبھی ارادہ باندھنے کا سوچو تو سہی
میں ہمیشہ سوچتا،
سوچتا
لیکن کہہ نہ پاتا
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *