فقط تیرا مسافر ہی نہیں ہے
مرا تو ہجر بھی اب بٹ گیا ہے
اداسی ہے کہیں تو غم کہیں ہے
جہاں اک موڑ تھا چاہت کا فرحت
مرا اک حادثہ اب تک وہیں ہے
ہے آنکھوں کو تو عادت آنسوؤن کی
نہیں ہے کوئی دکھ مجھ کو نہیں ہے
جسے میں ختم کر بیٹھا ہوں من میں
مجھے لگتا ہے وہ اب بھی کہیں ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اور تم آؤ)