یہ سمے ہمیشہ کا سامری

یہ سمے ہمیشہ کا سامری
یہ سمے ہمیشہ کا سامری
مرے گرد و پیش تمام خواب، خلا رہا
کہیں تُو نہیں تھی تو اجنبی مجھے لے اڑے
کہیں میں نہیں تھا تو تیرے اپنے لیے پھرے تجھے دیس دیس کی
چادروں میں لپیٹ کر
کئی رنگا رنگ کی نیلی، پیلی، سیاہ، لال، گلابی، کاسنی چادریں
تُو پلٹ کے آئی تو میرا سایا ملا تجھے
مِرا سایا، سیاہ کفن میں لپٹا ہوا، اکیلا، جنازہ گاہ کی سیڑھیوں پہ پڑا ہوا
مرے سائے پر ترے بین سن کے ہوا کے نین برس پڑے
یہ سمے، ہمیشہ سے کج مزاج سمے، ہوا اسے کیا کہے
میں پلٹ کے آیا تو
تو تھی خود کسی راستے کی لپیٹ میں
کوئی راستہ، کوئی سانپ لپٹا ہوا تھا تیری مسافرت کے وجود سے
یہ نصیب بھی تو ہے راستہ، کہ جہاں، کہیں سے پلٹ کے آنا فریب ہے
یہ نصیب اور یہ سمے، ہوا انہیں کیا کہے
انہیں چھُو کے گزرے تو تب بُری جو نہ چھُو کے گزرے تو تب بُری
میں ترا اسیر
تُؤ میرے دل کے حصار میں
میں ترے حصار میں اور تُو میری قید میں
یہ سمے ہمیشہ کا سامری
ترے اسم سے بھی نکال لایا طلسم کو
تری جادو نگری میں گھر دیا مجھے خواب کا
مجھے منتروں کی ہوائیں دیتا رہا لہو میں ابال کر کوئی کھوپڑی
مرے گھر میں مجھ کو ہلا ہلا کے ڈرا ڈرا کے ابالتا رہا کھوپڑی
مجھے تیرے نام پہ گھیر گھیر کے گھیر گھیر کے مارتا رہا صحن میں
کبھی دیکھتا تھا گلوب میں
کبھی جھانکتا تھا پلٹ کے جام سفال میں
جہاں میں نہیں تھا تو کھینچ لایا وہاں تجھے
جہاں تو نہیں تھی گھسیٹ لایا وہاں مجھے
یہ سمے، ہمیشہ کا سامری
یہ سمے، ہمیشہ کا سامری
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *